انقلاب اسلامی کی برکت اور تعلیم و تربیت کے موثر پروگراموں نے سندہ کے نوجوانوں کو اصغریہ میں شمولیت پر آمادہ کیا، نتیجتا تنظیم دن بہ دن بڑہتی ہی گئی۔ ۸۰ کی دہائی میں بالخصوص ۹۸۰اع سے تنظیم نے ایک پراثر کام کا آغاز کیا اور وہ تھاماہنامہ المعصوم جریدے کی اشاعت کا کام ، سندھ میں پہلے بھی کبھی ایسا کوئی جریدہ خاص طور پر مکتب اہلبیت کا ترجمان جریدہ شایع نہیں ہوا تھا، اس جریدے کو سندھ کے شیعوں اور اہل علم کی طرف سے بہت پزیرائی ملی اور اصغریہ کو دلی دعائیں دیں، کیونکہ ان کی دیرینہ آرزو پایہ تکمیل کو پحنچی تھی۔ اس کے علاوہ ایک دہائی کے درمیانی عرسے میں یعنی ۱۹۸۵ع میں ضرورت محسوس کی گئی کہ اصغریہ اسٹوڈنٹس جیسا کہ ایک طلبہ کی تنظیم ہے، جو شیعہ نوجوان اپنی طالب علمی کا دورانیہ پورا کر لیتے ہیں ساتھ ہی تنظیم کی تعلیمی اور تربیتی سلسلوں سے گزر کر ذہنی اور فکری پیشگی حاصل کرتے ہیں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اصغریہ گریجویٹس آرگنائیز پیشن (AGO) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کے لیے شرط یہ تھی کہ اس تنظیم کے اراکین اور لیڈر صرف گریجویشن کرنے والے ہی ہو سکتے ہیں۔ پھر جلد ہی سندھ بھر سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ سندھ کے اندر شیعہ افراد کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں ہے، جہاں کی علمی صورتحال یہ ہے کہ عمومی طور پر یہاں کے نوجوان صرف میٹرک یا انٹر تک اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ۔ اس لیے (AGO ) میں یہ گنجائش ہونی چاہیے کہ میٹرک یا انٹر پاس کرنے والے نوجوان بھی اس تنظیم میں شامل ہو کر کردار سازی اور معاشرہ سازی کے اہم ہدف میں حصہ لے سکیں۔ اس مطالبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیمی آئینی اداروں نے اپنی اپنی نشستوں میں گفتو شنید کے بعد اس بات سے اتفاق کیا کہ (AGO) کے دامن کو وسیع کرتے ہوئے گریجویشن کی شرط ختم کی جائے ، اور تنظیم کا نام اصغریہ آرگنائیزیشن سندھ رکھا جائے۔ اس فیصلے کے بعد تنظیم میں اتنی وسعت پیدا ہوئی کہ سندھ کے تمام اضلاع اور ڈویزن تنظیم سازی کے ذریعے منظم ہوئے اور ممبران کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس ۸۰ کی دہائی میں سندھ کے اندر دو منظم اور متحرک تنظیمیں ہیں اصغریہ اسٹوڈنٹس اور اصغریہ آرگنائیزیشن نے انتہائی فعال انداز سے اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے نہ صرف تنظیمی معاملات کو ذہن میں رکھا بلکہ قومی معاملات میں بھی بڑوں کا ساتھ دیا۔ اسلامی جمہوری ایران پر مسلط کی ہوئی عراقی جنگ کے دوران جب ایران کے خرم شہر پر یہودی ایجنٹ صدام ملعون نے کیمیائی بم گرائے تو لا تعداد معصوم بچے اور خواتین بے گھر اور زخمی ہوئے، عالمی اداروں کی بے حسی دیکھتے ہوئے ایرانی قیادت نے مسلمان ملکوں سے ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی شکل میں امداد کی خواہش کی۔ صغریہ جیسا کہ اس انقلاب کو آئیڈیل اور دنیا کے مظلومین کے لیے امید کی کرن سمجھتی تھی۔ اس نے ہنگامی بنیادوں پر سندھ بھر سے نقدی رقم، اشیاء اور ادویات جمع کر کے مظلوموں کی مدد کے لیے بھیجیں۔ یہ ایک بار نہیں تھا بلکہ جس وقت ایران کے صوبے گیلان میں زلزلہ آیا تو متاثرین کی مدد کے لیے تنظیم نے ایک بار پھر جوش و خروش کے ساتھ ادویات، کپڑے، بستر اور رقم جمع کر کے مسلمان بہاءيوں کے طرف بھیجیں۔ اس کے بعد قومی حوالے سے قائد مرحوم مفتی جعفر حسین کی جانب سے شیعہ مطالبات کے لیے اسلام آباد کنونشن کا انعقاد کیا جس میں اصغریہ اپنی قیادت سے ہم قدم رہی۔ نہ صرف یہ بلکہ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے پاکستان میں منظم سیاسی جدوجھد کا آغاز کرنے کے لیے جب لاہور میں قرآن و سنت کانفرنس منعقد کی تو اس کے لیے بھی سندھ کے شیعہ نوجوانوں کی یہ دونوں تنظیمیں اپنی قیادت کے ساتھ ہم قدم رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہید قائد نے جب سندھ کے اندر تحریک کو منظم کرنا شروع کیا تو یہ دونوں تنظیمیں شہید قائد اور آپ کے دست راست آقائی حیدرعلی جوادی کی ہم قدم رہیں۔ 90 کی دہائی بھی تنظیمی کارکردگی کے حوالے سے یاد گار دہائی رہی، مندرجہ بالہ صفحات میں یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اصغریہ اس معاشرے کی تعمیر سیرت آئمہ کے مطابق کرنا چاہتی ہے۔ اصغر یہ ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے سرگرم عمل ہے جو تعلیمات محمد و آل علیهم السلام کے مطابق ہو ۔ اس لیئے تنظیم نے پہلے ہی دن سے مؤثر تعلیم وتربیت کو بنیاد بناکر کام کا آغاز کیا۔ .و کے دہائی میں تنظیم کے اندر تعلیم وتربیت کا ایک منظم سسٹم بنایا گیا تعلیمی نصاب مرتب کیا گیا.